خلافتِ عثمانیہ کا پہلا خلیفہ اور خادم الحرمین شریفین ، سلطان سلیم اول | خلافتِ عثمانیہ سیریز (قسط نمبر 9)

دوستوں اقتدار کی کشمکش ایسی ظالم چیز ہے کہ بھائی کو بھائی اور بیٹے کو باپ کے مقابل لا کھڑا کرتی ہے۔
تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جس میں اپنوں نے ہی اقتدار کی ہوس میں اپنے خون سے بغاوت کر دی ایسا ہی کچھ سلطنت عثمانیہ کی تاریخ میں بھی ہوا۔

جب سلطان بایزید ثانی کے بیٹے سلیم نے اپنے والد کے خلاف بغاوت کر دی
عصری کی پچھلی قسط میں ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ سلطان بایزید ثانی کے تین بیٹے تھے۔

اور جانشینی کے لیے سلطان کی نظر ان کے بیٹے احمد پر تھی ۔
لیکن اس کا چھوٹا بیٹا سلیم فوجی قابلیت کا حامل تھا اور فوج میں بہت مقبولیت رکھتا تھا احمد کی طرف روجھان دیکھ کر سلیم جنگ کے لیے تیار ہو گیا۔

باپ بیٹے میں جنگ ہوئی اور سلیم کو شکست ہوگئی
اس کے بعد وہ کریمیا روانہ ہو گیا جہاں اس کا سسر فرمانروا تھا۔
اپنے سر کی مدد سے سلیم دوبارہ قسطنطنیہ آیا اور فوج کی مدد حاصل کی جس کی وجہ سے فوج نے بایزید ثانی سے دستبرداری کا مطالبہ کر دیا۔

فون کرو جان دیکھ کر سلطان بایزید نے 25 اپریل پندرہ سو بارہ کو سلیم کے حق میں دست برداری کا اعلان کیا۔

اس کے بعد کیا ہوا یہ ہم آپ کو بتائیں گے آج کی اس قسط میں۔

سلطان سلیم اول سلطنت عثمانیہ کے تاریخ کے نویں حکمران تھے۔
اس کے علاوہ آپ خلافت عثمانیہ کے پہلا خلیفہ بھی دیکھیں کہ خلافت عثمانیہ کو خلافت سلیم اول کے دور میں ہی ملی۔
سلطان سلیم خلافت عثمانیہ کی توسیع کے حوالے سے ایک بڑا نام بھی رکھتے ہیں۔

آپ کو سلطان یاوس سلیم بھی کہا جاتا ہے۔

کیونکہ وہ بعد شجاعت اور بیدری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔آپ مشہورو عثمانی سلطان سلیمان اعظم کے والد بھی ہیں۔ سلطان سلیم اول 10 اکتوبر چودہ سو ستر کو ریاست عماسیہ میں پیدا ہوئے۔

ان کے والد ثانی کو اقتدار چودہ سو اکاسی میں ملا اور اکتیس سال بعد پندرہ سو بارہ میں سلطان بایزید سلیم کے حق میں حکومت سے دستبردار ہوگئے۔

لہذا آپ قسطنطنیہ سے ڈیمونیکا کی طرف روانہ ہوئے تاکہ آپ اپنی بقیہ زندگی وہاں  گزار سکیں۔

لیکن راستے میں ہیں وہ بیمار ہو گیا اور وفات پا گئے 24 اپریل پندرہ سو بارہ کو سلیم استنبول میں تخت عثمانی پر بیٹھ گئے۔

سلطان سلیم عوام اور فوج کی رضا مندی سے تخت نشین ہوئےاور پھر انہیں کھل کر اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملا یا وہ سلطان بنے تو اس وقت ان کی عمر 42 سال کو پہنچ چکی تھی۔

سلطان سلیم سخت مزاج آدمی تھے بڑی مونچھیں ان کی پہچان تھی۔عدل و انصاف کے معاملے میں وہ بہت سخت تھے اس کے علاوہ دین اسلام میں انہیں بہت زیادہ لگاؤ تھا۔ ان کے سخت مزاج کی وجہ سے بعض تاریخ دان ہیں سلیم تنخو بھی کہتے ہیں۔
آپ کو یاوس کا خطاب آپ کی بہترین شخصیت کی وجہ سے ملا اس کا لفظی معنی مستقل مزاج کہ لیکن بعض لوگ اس سے بے رحم مطلب بھی لیتے ہیں۔

تخت نشیں ہونے کے بعد ان کا سب سے بڑا خطرہ ان کے اپنے بھائی تھے۔احمد اور کورکت سلطان سلیم نے خط لکھے اور کہا کہ میں تمہیں کس صوبے کا گورنر مقرر کرتا ہوں لیکن تم کوئی بغاوت نہیں کرو گے۔

ظاہری طور پر ان دونوں نے باہمی رضا مندی ظاہر کی لیکن سلطان سلیم اپنا فون کو جانتے تھے کہ ان کے بھائی آرام سے بیٹھنے والے نہیں ہیں۔

سلطان سلیم کو خبریں ملتی رہیں کہ ان کا بھائی فوج جمع کر رہا ہے اور فوج کے اخراجات پورے کرنے کے لیے انہوں نے عوام پر بہت زیادہ ٹیکس اور محصولات عائد کی۔

لیکن سلطان سلیم نے اپنے بھائی کے خلاف جنگ کرنے میں پہل نہیں کی یہاں تک کہ احمد عماسیہ میں فوج لے کر آگیا۔

اس وقت سلطان سلیم نے سوچا کے رکھنا چاہیے اس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔اس جنگ میں سلطان سلیم نے احمد کو شکست دی جس کے بعد احمد بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے علاقوں میں چھپتا پھرتا رہا۔آخر کار پکڑا گیا اور اس طرح قتل کر دیا گیا۔

سلطان سلیم کا بڑا بھائی کر کود جس نے آمادگی ظاہر کی تھی کہ وہ بغاوت نہیں کرے گا اس کو کچھ لوگوں نے استنبول سے خط لکھا کہ آپ یہاں استنبول میں واپس آئیں وہ سلطان سلیم کو ہٹا دیں گے اور اسکو تخت نشین کر دیں گے۔

کرکت نے ان لوگوں کو مثبت جواب دیا اور خط لکھا اور وہ سلطان سلیم کے ہاتھ لگ گیا۔سلطان سلیم نے خلافت عثمانی کی صدارت کو باقی رکھنا مناسب نہ سمجھا اور فوج کشی کرکے کرکت کو زندہ گرفتار کر لیا۔

گرفتار کرنے کے بعد سلطان سلیم نے کرکت کو قتل کروا دیا لیکن سلطان سلیم کو کرکت کو قتل کرنے پر بہت زیادہ افسوس ہوا۔

سلطان سلیم اپنے بھائی کے قتل پر اس قدر رنجیدہ تھا کہ اس نے کئی دن تک کھانا پینا چھوڑ دیا اور بعض اوقات روتا رہا۔

اب سلطان سلیم وحد بچ گئے تھے اور تسلی سے حکومت کرسکتے تھے۔صفوی سلطنت ایران کے ایک شیعہ سلطنت تھی صفویوں سے عثمانیوں کے تعلقات ہمیشہ خراب رہے تھے۔

اور یہ عثمانیوں کے سب سے بڑے دشمن خیال کیا جاتے تھے۔سلطان سلیم اپنے بھائیوں کے خلاف بغاوت سے نجات پاتے ہی صفوی سلطنت کی طرف خیال کیا۔

حقیقت یہی ہے کہ سلطان سلیم اگر ایران کے صفوی سلطنت کی طرف توجہ نہ کرتا تو سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے۔

سلطان سلیم کے دور میں ایرانی سلطنت صفوی کا حکمران اسماعیل صفوی تھا۔سلطان سلیم نے پہلے شاہ اسماعیل صفوی کو خط لکھا۔

سلطان سلیم نے اس خط میں لکھا کہ تم نے جو کیا ہے اس کے بعد ہمارے علماء نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تیرا قتل لازم ہے۔
ہر سچے مسلمان کا فرض ہے کہ وہ تم سے اور تیرے پیروکاروں سے جنگ آزما ہوں۔

لیکن اس سے پہلے کہ میں اپنی تلوار کو میان سے نکال دو میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ تم صحیح دین کی طرف لوٹ آؤ۔

سلطان سلیم کے خط کے جواب میں شاہ اسماعیل صفوی نے سلطان سلیم کو افیون کا تحفہ بھیجا ، اور کہا کہ لگتا ہے کہ یہ خط نشے کی حالت میں لکھا گیا ہے۔



اس کے جواب میں سلطان سلیم نے اس کو ایک جواب بنسخۃ لکھا جس میں سلطان سلیم نے کہا کہ اب جنگ کے لئے تیار رہو۔

اس کے بعد سلطان سلیم نے جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں اور ایک لاکھ چالیس ہزار کا لشکر لے کر ایران کے دارالحکومت تبریز کی طرف روانہ ہوئے۔
اسماعیل نے تمام علاقہ ویران کروا دیا اور خود تبریز میں پناہ لی۔

سلطان سلیم کے سب سے بڑی مشکل رسد کی تھی فوج میں کھانے پینے کی اشیا کی کمی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے فوج کا لشکر جو تھا وہ بددل ہو گیا تھا۔ اور آگے بڑھنے سے انکار کر دیا لیکن سلطان سلیم مستقل مزاج تھے وہ لشکر  آگے بڑھاتے ہی گئے۔

بالآخر لشکر نے اعلانیہ اگے بڑھنے سے انکار کردیا کین سلیم نے لشکر بکھرنے نہیں دیا وہ لشکر کے سامنے آ گئے اور کہنے لگے : کیا تم اسی طرح سلطان کی خدمت کرتے ہو تم میں سے جو بزدل ہیں وہ الگ ہوجائے بہادر سے اور واپس چلے جائیں میں انہیں نہیں روکوں گا۔

کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی واپس نہیں گیا یا پھر جب تک گریز کے بالکل قریب پہنچا تو اسماعیل کو مجبوراً باہر آنا پڑا  تبریز کے قریب ایک وادی خالدران میں دونوں فوجوں کا ٹکراؤ ہوا ترک فوج پہ تھکی ہوئی تھی اس نے بارہ سو میل کا فاصلہ 126 دنوں میں طے کیا تھا۔

شروع کی لڑائی میں ترک فوج کے کچھ دستوں کو پسپا ہونا پڑا مگر فوراً سنبھل گئے اور دوبارہ حملہ کیا ، سلطان کی بےپناہ تجربہ کار صلاحیت سامنے آئی اور توپوں سے گولہ باری بھی کی گئی۔

جلد ہی صفوی فوج کی پاؤں کر گئے آئے اور شاہ اسماعیل صفوی بھی بھاگ نکلا لیکن زخمی ہوگیا۔اس جنگ میں 25 ہزار صفوی مارے گئے اور زخمیوں کی تعداد ان گنت تھی۔

4 ستمبر 1415 کو سلطان سلیم شہر تبریز میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے تبریز کے بعد سلطان سے میں دیاربکر اور گردستان وغیرہ کے کچھ علاقے بھی اپنے قبضے میں کئے۔

مفتوحہ علاقوں میں ایک مشہور مورخ ادریس کو حاکم بنایا سلطان سلیم کے ساتھ اس جنگ کے بعد بھی اسماعیل صفوی نہ سدھرا سلطنت عثمانیہ اور سلطنت صفویہ کے درمیان حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے۔

ان فتوحات کے بعد سلطان سلیم کے لئے پورے ایران کو فتح کرنا مشکل نہیں رہا تھا لیکن کسی وجہ سے سلطان سلیم نے ایسا کرنا مناسب نہ سمجھا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی کے خاندان ایوبیۃ کے ساتویں سلطان ملک کو صالح نے مصر میں غلاموں کی ایک فوج بنائی تھی۔

ناموں کی فوج کو مملوکی فوج کہا جاتا ہے بہت جلد اس فوج نے تخت پر قبضہ کرلیا۔یوبیا سلطنت کے بعد ملک کی سلطنت کی بنیاد پڑی مصرمیں۔

مملوک اول دور میں بہت بڑے جنگجو ثابت ہوئے۔ان کا پہلا حکمران شجر الدر تھا جو چند ماہ بعد ہی معزول ہوگیا۔

ازالدین ایبک دوسرا حکمران تھا ، مملوک خاندان کو خاندان غلاماں بھی کہا جاتا ہے۔سلطان سلیم کے دور تک مصر میں مملوکوں کی حکومت تھی۔

البتہ خلیفہ اس وقت عباسی تھا مملوکوں اور سلجوقوں کے ہاتھ میں طاقت ہونے کے باوجود انہوں نے مملوکوں کی سلطنت کو برقرار رہنے دیا۔

عباسی خلیفہ مملوکوں کی حفاظت کے لیے مصر میں رہتے تھے۔مملوک کی ریاست کی بنیاد بارہ سو پچاس میں پڑھی تھی۔اور بارہ سو ننانوے میں عثمانی سلطنت وجود میں آئی۔

مملوک مصر اور شام کے علاوہ حجاز کے بھی خودام تھے۔عباسی دور میں مملکت اور آسمانوں کے درمیان کوئی چپکلش نہیں تھی۔

دونوں کے درمیان کوئی بھی خلش اور اختلافات نہیں تھے۔ لیکن سلطان محمد فاتح کی وفات کے بعد جب سلطان بایزید دوم سلطان بنے تو بایزید کے باغی بھائی شہزادہ جمشید شکست کھاکر مصر پہنچے تو ان کے ساتھ پہلی دفعہ مملوکوں کے تعلقات خراب ہوئے۔

اس صورتحال میں عثمانیوں کے جنگ بھی مملوکوں کے ساتھ ہوئی اور عثمانیوں کو خاصا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔سلطان سلیم مملوکوں کو سے لڑنا نہیں چاہتا تھا۔

کیونکہ وہ اس کے ہم عقیدہ اور ہم مذہبی تھے۔لیکن کچھ وجوہات ایسی تھی کہ آپ معلومات سلطنت اور عثمانی سلطنت کو ایک ہونا تھا۔

سلطان سلیم نے فوراً اجلاس طلب کیا اور اس مسئلے پر بحث کی گئی بلآخر محمد پاشا کا مشورہ مان لیا گیا کے ملکوں پر حملہ کر کے اب اسے ایک سلطنت بنا دیا جائے۔

کیوں کہ اس بار عثمانی سلطنت اس بات کا حق رکھتی تھی سلطان سلیم نے مملوک سلطنت کے حکمران کو خط لکھا کہ تم میری اطاعت کو قبول کر لو اور باجگذار ریاست بن جاؤ۔ورنہ ہم تمہارا ملک مجبورا چھین لیں گے۔

مگر مملوکی حکمران نے سلطان سلیم کا تمسخر اڑایا اور سفیروں کو قید کر لیا۔سلطان سلیم فورا قسطنطنیہ سے فوج لے کر روانہ ہو گئے۔جب وہ حلب کے قریب پہنچے تو مملوکی حکمران گھبرا گیا اور اس نے سلطان کا سفیروں کو رہا کرکے صلح کی پیشکش کر دی۔

مگر صلح نہ ہوئی بلکہ جنگ ہوئی اس جنگ میں مملوک کی سلطنت کے پاؤں اکھڑ گئے اور سلطان سلیم آگے بڑھ کر حلب میں داخل ہوگئے۔

سلطان سلیم کی آمد پر حلقے کی عوام کی جانب سے والہانہ استقبال کیا گیا۔خدا کے مبارک باد دے اور رحم کی درخواست کی۔

 سلطان سلیم نے انکے ساتھ اچھا برتاؤ کیا پھر سلطان سلیم جامع مسجد گئے خطیب نے جمعہ کے خطبے میں سلیم کا نام لیا اور انہیں خادم الحرمین الشریفین کا لقب دیا۔

حلب فتح کرنے کے بعد سلطان سلیم آگے بڑھے۔ دوسری شہروں کے دروازے سلطان سلیم کے لئے خود بخود کھلتے چلے گئے۔کسی نے بھی مذمت نہیں کی بلکہ جس کی لوگوں نے سلطان سلیم کا والہانہ استقبال کیا اور شہر سلطان کے حوالے کردیا جاتا۔

بلاآخر دمشق ، بیت المقدس اور متعدد شہرسلطان کی حدود میں آگئے۔دمشق میں سلطان نے ابن عربی کی قبر پر مقبرہ تعمیر کروایا اور یوں شام سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔

حجازمقدس اس وقت تک مملوکیوں کے تابع تھا۔جب شریفہ مکہ برکات بن محمد خود پتہ چلا کہ مملوک حکمران کا قتل ہوچکے ہیں تو اس نے فورا ہی سلطان سلیم کی اطاعت کو قبول کرلیا۔

اور خانہ کعبہ کی چابیاں اور تبرکات ان کے حوالے کردیں۔سلطان نے برکات بن محمد کو ان کے منصب پر باقی رکھا اور  اسکو وسیع اختیارات تفویض کیے۔

 سلطان سلیم نے اپنے لئے حاکم الحرمین کے بجائے خادم الحرمین الشریفین کا لقب پسند کیا اور خلافت حاصل کر کے خلیفہ و امیر المومنین کہلایا اس طرح سلطان سلیم کو حرمین شریفین کے خادم ہونے کی سعادت بھی حاصل ہوگئی۔

اب سلطان سلیم عالم اسلام کا سب سے طاقتور فرمانروا تھا اور اس کی قدر و منزلت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی تھی بالخصوص جب دولت عثمانیہ نے مقدس مقامات کے لیے بہت سے اوقاف قائم کیے۔

 ان اوقات کی آمدنی قصر سلطانی میں ایک مستقل خزانے میں جمع ہوتی تھی حجاز مقدس کے عثمانیہ کے زیر نگیں آنے کی وجہ سے پہلے احمر پر آسمانوں کو غلبہ حاصل ہوگیا۔

حجازمقدس اور بحر احمر سے پرتگالی خطرہ ٹل گیا۔اور یہ غلبہ انیسویں صدی کے اختتام تک برقرار رہا سلطان سلیم اور اس کے آباؤاجداد کو عظیم مقام حاصل ہوا۔

بالخصوص اس وقت جب قاہرہ میں مرکز خلافت تھا کوئی دم خم نہیں رہا تھا۔سلیم کی فتوحات نے اسے طاقت دے دی تھی۔

 اپنے دور حکومت میں سلطان سلیم نے عثمانی سلطنت کا رقبہ 25 لاکھ مربع کلومیٹر سے پینسٹھ لاکھ مربع کلومیٹر تک پہنچا دیا مصر کے موم سے واپسی کے بعد سلطان سلیم نے جزیرہ رہوڈس پر چڑھائی کی تیاریاں شروع کر دی۔

 تاہم اس دوران بیمار پڑ گئے اور کچھ عرصے کے بعد 22 ستمبر 15 سو بیس کو 50 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

سلطان سلیم کو استنبول کی یاو سلیم مسجد میں دفن کردیاگیا۔

Post a Comment

0 Comments